قومی زندگی کی بنیادی چیز وں میں سے ایک سنہ اور تاریخ ہے، جو قوم سنہ نہیں رکھتی وہ گویا اپنی بنیاد کی ایک اینٹ نہیں رکھتی

اسلام کے ظہور سے پہلے دنیا کی متمدن قوموں میں سنہ جاری تھے۔ زیادہ مشہور یہودی، رومی اور ایرانی سِنین (سنہ کی جمع، بہت سے سال) تھے۔ عرب کی جاہلیت کی اندرونی زندگی اس قدر متمدن نہیں تھی کہ حساب و کتاب کی کسی وسیع پیمانے پر ضرورت ہوتی۔ اوقات و مواسم کی حفاظت اور یاد داشت کیلئے ملک کا کوئی مشہور واقعہ لے لیتے اور اس سے وقت کا حساب لگا لیتے۔ منجملہ سِنینِ جاہلیت کے ’’عام الفیل ‘‘ تھا۔ یعنی شاہِ حبش ’’ابرہہ‘‘ کے حجاز پر حملہ کرنے کا سال۔ عرصے تک یہی واقعہ عرب کے حساب و کتاب میں بطورِ سنہ مستعمل رہا۔

ظہورِ اسلام کے بعد یہ اہمیت خود عہدِ اسلام کے واقعات نے لے لی۔ صحابہ کرام ؓ کا قاعدہ تھا کہ عہدِ اسلام کے واقعات میں کوئی ایک اہم واقعہ لے لیتے اور اسی سے حساب لگا لیتے تھے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد ہی سورہ ٔحج کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں قتال کی اجازت دی گئی تھی اس لئے کچھ دنوں تک یہی وجہ بطور ایک سنہ کے مستعمل رہا۔ لوگ اسے’’سنہ اذن‘‘ سے تعبیر کرتے۔ یہ تعبیر وقت کے ایک خاص عدد کی طرح یاد داشت میں کام آتی تھی۔ اس طرح سورہ برأ ۃ کے نزول کے بعد بول چال میں ’’ سنہ براء ۃ ‘‘ کا بھی رواج رہا۔ عہدِ نبویﷺ کا آخری سنہ ’’سنۃ الوداع ‘‘ تھا یعنی آنحضرتﷺ کے آخری حج کا واقعہ جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور ہجرت کے دسویں سال پیش آیا تھا۔

حضرت عمرؓ اور تمام صحابہؓ  کا ذہن اس طرف گیا کہ اسلامی سنہ کی ابتداء واقعۂ ہجرت سے کی جائے۔ اس بارے میں متعدد روایتیں منقول ہیں، سب سے زیادہ مشہور میمون بن مہران کی روایت ہے جسے تمام مورخین نے نقل کیا ہے، خلاصہ اس کا یہ ہے :

’’ایک مرتبہ ایک کاغذ حضرت عمر ؓ کے سامنے پیش کیا گیا جس میں شعبان کا مہینہ درج تھا۔ حضرت عمرؓنے کہا شعبان سے مقصود کون سا شعبان ہے؟ اس برس کا یا آئندہ بر س کا؟ پھر آپؓنے سربر آوردہ صحابہؓ  کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ اب حکومت کے مالی وسائل بہت زیادہ وسیع ہوگئے ہیں اور جو کچھ ہم تقسیم کرتے ہیں، وہ ایک ہی وقت میں ختم نہیں ہوجاتا لہٰذا ضروری ہے کہ حساب و کتاب کیلئے کوئی ایسا طریق اختیار کیا جائے کہ اوقات ٹھیک طور پر منضبط ہوسکیں۔

اس پر لوگوں نے کہا کہ ایرانیوں سے مشورہ کرنا چاہئے کہ اُن کے یہاں اس کے کیا طریقے تھے؟ چنانچہ حضرت عمر ؓنے ہر مزان کو بلایا۔ اُس سے کہا ’’ ہمارے یہاں ایک حساب موجود ہے جسے ’’ماہ روز ‘‘ کہتے ہیں۔ اِسی ماہ روز کو عربی میں ’’مورّخہ‘‘ بنالیا گیا ہے۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاریخ کیلئے جو سنہ اختیار کیا جائے اس کی ابتداء کب سے ہو؟ سب نے اتفاق کیا کہ ہجرت کے برس سے کی جائے چنانچہ ہجری سنہ قرار پایا‘‘ (تاریخ کبیر ذہبی و تاریخ مقریزی)

ابو ہلال عسکری نے ’’الاوائل‘‘ میں اور مقریزی نے’’ تاریخ‘‘ میں حضرت سعید بن مسیّبؒ سے نقل کیا ہے کہ واقعۂ ہجرت سے سنہ شروع کرنے کی رائے حضرت علی ؓ نے دی تھی وہ کہتے ہیں کہ ’’حضرت عمر ؓ نے جب صحابہ ؓ سے مشورہ کیا کہ کس دن سے تاریخ کا حساب شروع کیا جائے؟ تو حضرت علی ؓنے فرمایا اُس دن سے جس دن آنحضرت ﷺ نے ہجرت کی اور مکہ سے مدینہ آئے۔ ‘‘ (کتاب الاوائل قلمی، مقریزی)

یعقوبی نے بھی اسے منجملہ ان امور کے قرار دیا ہے جو حضرت علی ؓ کی رائے سے انجام پائے۔ 16ھ کے باب میں لکھا ہے کہ ’’اُسی زمانے میں حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ ضبطِ کتابت کیلئے ایک تاریخ قرار دے دی جائے، پہلے اُنہیں خیال ہوا کہ آنحضرتﷺ کی ولادت سے شروع کریں پھر خیال آیا کہ آپﷺ کی بعثت کے واقعے سے ابتداء کی جائے لیکن حضرت علی ؓ نے رائے دی کہ ہجرت سے شروع کرنا چاہئے۔ ‘‘

ان روایات کے مطالعہ کے بعد ضروری ہے کہ بعض امور پر غور کیا جائے :

سب سے پہلے جو بات سامنے آتی ہے یہ کہ حضرت عمرؓ  اور صحابہؓ نے یہ ضرورت محسوس کیوں کی کہ ایک نیا سنہ قرار دیا جائے؟ امام شعبی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ  تاریخ کے تعین وتقرر کی ضرورت محسوس کر رہے تھے لیکن پسند نہیں کر رہے تھے کہ دوسری قوموں کی تاریخ اختیار کر یں۔

پہلی روایت میں جس ہر مزان کو بلانے اور مشورہ کر نے کا ذکر ہے، یہ خوز ستان کا بادشاہ تھا اور مسلمان ہو کر مدینہ میں آباد ہو گئے تھا۔ حضرت عمرؓ  کی مجلس شوریٰ میں ان کا بار بار ذکر آتا ہے، بیرونی لکھتے ہیں :جب حضرت عمر ؓ نے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے نہ صرف ایرانیوں کا طریقہ بتلایا بلکہ روسیوں کے طریقے کی بھی تشریح کی۔ ایرانیوں کے یہاں سنہ یزدگر کا تھا اور رومیوں کا مشہور سنہ سکندر کی پیدائش سے شروع ہو تا ہے۔

بعض اصحاب کو خیال ہواکہ انہی دونوں میں سے کوئی سنہ اختیار کرلیا جائے لیکن حضرت عمر ؓ  اور دوسرے لوگ اس سے متفق نہ ہوئے۔ اس سے معلوم ہواکہ ایرانیوں اور رومیوں کے سِنین مجمع میں زیر بحث رہے اور بعض نے اسے اختیار کر نے کی رائے بھی دی  لیکن عام ر جحان اس طرف تھا کہ نیا سنہ مقرر کرنا چاہئے۔

اسلام کی تربیت نے صحابہؓ کے دل ودماغ میں قومی شرف اور خود داری کی روح پھونک دی تھی۔ قومی زندگی کی بنیادیں جن اینٹوں پر استوار ہوتی ہیں اُن میں سے ایک ایک اینٹ کیلئے ان کے اندر پہچان اور لگاؤ تھا۔ اگر چہ وہ لفظوں میں اور تعبیروں میں انہیں بیان نہ کر سکیں۔ جب حضرت عمرؓ نے سنہ اور تاریخ کی ضرورت محسوس کی تو اگر چہ متمدن اقوام کے سنین رائج ومستعمل تھے لیکن ان کی طبیعت مائل نہ ہوسکی اس لئے کہ ایسا کر نا نہ صرف قومی شرف وخود داری کے خلاف تھا بلکہ قومی زندگی کی بنیادی انیٹوں میں سے ایک اینٹ کھو دینا تھا۔

قومی زندگی کی بنیادی چیزوں میں سے ایک نہایت اہم چیز سنہ اور تاریخ ہے، جو قوم سنہ نہیں رکھتی وہ گویا اپنی بنیاد کی ایک اینٹ نہیں رکھتی۔ قوم کا سنہ اس کی پیدائش اور ظہور کی تاریخ ہو تا ہے۔ یہ اس کی قومی زندگی کی روایت قائم رکھتا اور صفحہ ٔعالم پر اس کے اقبال و عروج کا عنوان ثبت کر دیتا ہے۔ یہ قومی زندگی کے ظہور وعروج کی ایک جاری و قائم یا دگا رہے، ہر طرح کی یادگاریں مٹ جاتی ہیں لیکن یہ نہیں مٹ سکتی کیو نکہ سورج کے طلوع و غروب اور چاند کی غیر متغیر گردش سے اس کاد امن بند ھ جاتا ہے اور دنیا کی عمر کے ساتھ ساتھ اسکی عمر بھی بڑھتی رہتی ہے۔

سب سے اہم نقطۂ نظر واقعۂ ہجرت کا اختصاص ہے۔ اس پہلو پر بھی غور کر نا چاہئے کہ سنہ کی ابتداء قرار دینے کیلئے جس قدر بھی سامنے کی چیزیں ہو سکتی تھیں، ان میں سے کسی چیز کی طرف ان کی نگاہ نہ گئی ، ہجرتِ نبویﷺ کا واقعہ جو آغازِ اسلام کی بے سرو ساما نیوں اور کمزوریوں کی یاد تازہ کرتا تھا ، اختیار کیا گیا، آخر اس کی علت کیا تھی؟

مسلمانوں کا قومی سنہ قرار دینے کیلئے قدرتی طور پر جوچیز یں سامنے تھیں وہ اسلام کا ظہور تھا، داعی ٔ اسلامﷺکی پیدائش تھی، نزولِ وحی کی ابتدا تھی، بدرکی تاریخی فتح تھی، مکہ میں فتح مندانہ داخلہ اور حجۃ الواداع تھا جو اسلام کی ظاہری اور معنوی تکمیل و فتح کا آخری اعلان تھا لیکن ان تمام واقعات میں سے کوئی واقعہ بھی اختیار نہیں کیا گیا۔ ہجرتِ مدینہ کی طرف نظر گئی جو نہ تو کسی کی پیدائش کا جشن ہے نہ کسی ظہور کی شوکت، نہ کسی جنگ کی فتح ہے، نہ کسی غلبہ وتسلط کا شادیانہ بلکہ اس زمانے کی یاد تازہ کر تا ہے جب آغازِ اسلام کی بے سرو سامانیاں اور ناکامیاں اس حدتک پہنچ گئی تھیں کہ داعی ٔاسلامﷺ کیلئے اپنے وطن میں زندگی بسر کر نا ناممکن ہو گیا تھا۔ بیچارگی اور مظلومیّت کی انتہا تھی کہ اپنا وطن،اپنا گھر، اپنے عزیز و اقارب اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف ایک رفیق غم گسار کے ساتھ رات کی تاریکی میں، رہ سیار دشتِ غربت ہوا تھا۔

صحابہ کرام ؓ نے جب پیدائش و بعثت کے واقعاتِ عظیمہ ترک کر کے ہجرت کا واقعہ انتخاب کیا تو ان کی نظر بھی پیدائش و ظہور، فتح و اقبال اور جشن و کامرانی پر ہی تھی۔ وہ کچھ ناکامی و نامرادی کے طلب گارنہ تھے البتہ وہ فتح واقبال کی صورت اور برگ وبار نہیں دیکھتے تھے، حقیقت اور تخم و اساس پر نظر رکھتے تھے۔ ان پر یہ حقیقت کھل چکی تھی کہ اسلام کی پیدائش و ظہور اور فتح واقبال کی اصلی بنیاد ان واقعات میں نہیں جو بظاہر ہو تے ہیں بلکہ ہجرتِ مدینہ اور اس کے اعمال و حقائق میں ہے اس لئے جو اہمیت دنیا کی نگا ہیں پیدائش، بعثت، بدر اور فتح مکہ کو دیتی تھیں، وہ ان کی نظروں میں ہجرتِ مدینہ کو حاصل تھی۔