ان مقامات پر وحدتِ امت مسلمہ کا نظارہ بخوبی ہوتا ہے،ہر حاجی چاہے نہ چاہے اخوتِ اسلامی کے پختہ رنگ میں رنگاجاتاہے


عبد الحفیظ المکی۔مکہ مکرمہ


اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘(آل عمران97)
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حج کی فرضیت کی ابتداء اسی آیت شریفہ کے نزول سے ہوئی۔ امام ترمذی نے اپنی جامع میں حضرت علیؓ سے روایت فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺ  کا ارشاد ہے کہ ’’جس شخص کے پاس اتنا خرچ ہو اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھربھی وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہوکر مرجائے یا نصرانی ہو کر ‘‘ اس کے بعدحضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں وہ آیت پڑھی جو اوپر گزری ہے۔ اسی طرح اور احادیث وآثارِ صحابہؓ میں ایسا ہی مضمون آیا ہے اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اگر چہ ائمہ اربعہؒ اور جمہور علمائے اسلام کے نزدیک حج نہ کرنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا مگر یہ وعید بہر حال بہت سخت ہے۔ ہر مسلمان کو حج فرض ہونے اور استطاعت کے بعد سستی نہیں کرنی چاہئے۔ جلد از جلد فرض حج ادا کرنا چاہئے۔ حج کے اور اسکے مختلف اعمال کے بے شمار فضائل و منافع قرآن اور حدیث میں مذکور ہیں۔


بخاری ومسلم کی روایت ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ حضورﷺ  کا ارشاد ہے ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے حج کرے اس طرح کہ اسمیں نہ رفث ہو (یعنی فحش بات) اور نہ فسق ہو (یعنی حکم عدولی) تو وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا ‘‘ یعنی جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ معصوم ہوتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ ،کوئی لغزش نہیں ہوتی ۔ یہی اثر ہے اس حج کا جو اللہ کے واسطے کیا جائے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ’’ نیکی والے حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ‘‘ اسکو بھی بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے ۔ حضرت جابرؓ  کی روایت میں ہے کہ ’’حج کی نیکی لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ’’ حج کی نیکی کھانا کھلانا اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرنا ہے ‘‘اللہ تعالیٰ تمام حجاج کرام کو نیکی والا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کے پچھلے گناہوں کو معاف فرما کر جنت عطا کرنے کا فیصلہ فرمائے، آمین۔


حجاج کرام فی الحقیقت اپنے اپنے علاقوں سے اللہ کے دربار میں خصوصی نمائندے اور وفد ہیں۔ پوری دنیا سے اللہ کے گھر کی طرف عشق و محبت الہٰی میں سر شار مختلف انداز سے چلے آرہے ہیں۔ اپنی اپنی میقات پہ پہنچ کر ہر حاجی احرام کی دو چادروں میں ملبوس ہوجاتا ہے ۔اسکے تمام رفقاء بھی اسی مبارک لباس کو پہن لیتے ہیں اور پھر سب دو رکعت نفل پڑھ کر احرامِ عمرہ یا حج کی نیت کرتے ہیں ۔

پھر سب نعرہ توحید لبیک اللھم لبیک لگانے میں محوو مصروف ہوکر اپنے مولائے کریم کی رحمتیں سمیٹنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔مکہ معظمہ حرم محترم میں ہر طرف سے ضیوف الرحمن کی آمد ہوتی ہے اور سب بیت اللہ کے گرد والہانہ طواف کرتے نظر آتے ہیں ۔ان میں گورے ،کالے ، گندمی ہر رنگ کے لوگ نظر آئیں گے ۔بعض انڈونیشی ،ما لیزی بعض ہند و پاک کے ،بعض مصرو شام کے ،بعض ترکی و ایران کے، کچھ امریکہ کے، کچھ چین، آسٹریلیا اور کچھ افریقہ کے، غرض ہر رنگ ونسل کے لوگ نظر آئیں گے مگر سب کا لباس ایک، انداز ایک، سب ایک ہی عبادت طواف و نماز و ذکر و دعاء میں مشغول و منہمک،سب ایک ہی رب کی طرف متوجہ اسی کے سامنے رو رہے ہیں،گڑگڑ ا رہے ہیں۔ اپنی حاجات کا سوال کر رہے ہیں۔کبھی حجر اسود کا عقیدت سے بوسہ لے رہے ہیں،کبھی رکن یمانی کا استلام، کبھی مقام ابراہیم پہ نماز اور کبھی حطیم میں داخل ہوکر اپنے رب سے مناجات کر رہے ہیں ۔پھر یہاں سے فارغ ہوکر سب مسعیٰ کی طرف جاتے ہیں اور صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے مابین سعی کرتے ہیں ۔ پھر تمتع والے حلق وقصر کراکے عام لباس پہن لیتے ہیں۔

پھر 8ذوالحجہ کو سب قران اور افراد والے ایک ہی لباس (احرام ) میں مکہ معظمہ سے منیٰ پھر اگلے دن سب منیٰ سے عرفات ،وہاں سب امیر وغریب ،شاہ وغلام، گورے کالے ،عرب عجم،مشرق ومغرب والے اور ہر رنگ ونسل کے لوگ ایک ہی لباس میں، ایک ہی انداز میں اپنے خالق کریم و مولیٰ غفور ورحیم کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنی حاجات مانگنے میں مصروف ہیں ۔دوپہر سے غروب تک یہی دلکش نظارہ ہر طرف نظر آئے گا کہ ہر شخص اپنے رب کریم کو منانے کی فکر میں لگا ہوا ہے ۔ کوئی رور رہا ہے کوئی چیخ رہا ہے ،کوئی راز و نیاز میں مشغول، کوئی تلاوت وتسبیح میں منہمک ،کوئی ذکر وفکر میں محو،غرض ہر شخص کو ایک ہی دھن ہے،سب کا ایک ہی مقصد کہ میرا رب، میرا مالک، میرا آقا مجھ سے راضی ہوجائے ۔میرے گناہوں کو بخش دے۔ میری جھولی کو اپنی رحمتوں سے بھر دے۔ میرے دل کو اپنے نور سے منور و روشن کردے۔ اپنے دین کی سر بلندی کے لئے مجھے قبول فرماے ۔ساتھ ہی اپنے عزیزوں، آل و اولاد، احباب و اقارب اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی دعاؤں کا اہتمام ہوتا ہے خاص طور پر فلسطین ،کشمیر، میانمار،افغانستان ، عراق ، روس، چین ، تھائی لینڈ، فلپائن، امریکہ و یورپ میں اور دیگرممالک میں مظلوم مسلمانوں کے لئے اہتمام سے دعا کی جاتی ہے اور پھر یہی حال مزدلفہ، منیٰ ،رمی جمرات،ہدی اور قربانی کے وقت بھی ہوتا ہے۔


ان سب مقامات پر وحدتِ امت مسلمہ کا نظارہ ہر جگہ بخوبی ہوتا ہے۔ہر حاجی چاہے نہ چاہے اخوتِ اسلامی میں پختہ رنگ میں رنگاجاتاہے۔دماغ ودل میں اسلامی بھائی چارہ کی چاشنی ہر شخص محسوس کرتاہے۔’’فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج‘‘ پر عمل کرکے ہر شخص گویا اس وحدت اسلامی اور اخوت ایمانی کو مضبوط سے مضبوط تر کرتاہے۔اس کے مضبوط بندھن میں بندھ جاتاہے۔حج کا فی الحقیقت یہ ایک اہم پیغام ہے کہ ہر مسلمان اس حقیقت کو جانے کہ مسلمان کہیں کا بھی ہو،کسی رنگ ونسل سے بھی اس کا تعلق ہو،کسی بھی خطے کارہنے والا ہو ،کسی بھی حیثیت کا حامل ہو ،وہ سب سے پہلے مسلمان ہے،اللہ کا بندہ ہے ۔دنیا میں کہیں بھی کسی علاقے میں مسلمان ہوں،وہ سب اس کے بھائی ہیں اور یہ بھائی آپس میں محبت اور رحمدلی میں ایسے ہیں جیسے ایک جسم ہوتا ہے کہ اس کے کسی حصے کو بھی تکلیف ہو توسارا جسم اس کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتاہے اور اس کی وجہ سے نیند نہ آئے تو سارا جسم جاگتاہے ۔

حجاج کرام کو یہ پیغام بہت اہتمام سے اپنانا چاہئے اور اس کو خوب پھیلانا چاہئے ۔اسوقت جبکہ پوری دنیا ئے کفر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکے ہیں اور ہر طرف مسلمانوں کو رسوا کیا جارہا ہے ،ان پر ہر نوع کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں،ان کی حکومتوں کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں،ہر طرف ان میں عدم استحکام پیدا کیاجارہاہے اور ان کے عقائد اور دین اسلام کی بنیادی ہدایات نیز نبیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے خلاف مکروہ اور جھوٹا پروپیگنڈا کیاجارہاہے۔ایسے میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس وحدت امت مسلمہ کے پیغام کو قولاً وعملاً ہر جگہ پہنچائے ۔آپس کے نزاع اور جھگڑوں سے بچنے کی کوشش کی جائے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ ’’ آپس میں جھگڑا اور نزاع نہ کرو ورنہ تم ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی‘‘(الانفال46 )مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ آپس میں اتفاق و اتحاد،محبت وپیارا وریکجہتی کی زندگی گزاریں۔ ایسی گفتگو ،ایسی باتوں،ایسے اعمال،ایسے انداز سے احتراز کریںجس سے آپس میں نفرت پیدا ہو اور جھگڑے کھڑے ہوں۔

آپس کے جھگڑوں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اٹھ جاتی ہے ۔دیکھئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ اس لئے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرمادیں مگر 2 مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اسلئے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہورہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی ۔دیکھئے2 آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے نبی اکرم سید الاولین والآخرین حبیب رب العالمینﷺ کی ذات اقدس بھی متاثر ہوئی تو پھر اندازہ کریں کہ جھگڑوں سے کتنی رحمت اٹھتی ہے ۔ جھگڑ ا ہمیشہ رحمتوں اور برکات سے محرومی کا سبب ہواکرتا ہے ۔

نبی کریم ﷺ  کا ارشاد ہے کہ’’ تمہیں نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ سب سے افضل چیز بتلاؤں؟‘‘صحابہ نے عرض کیا ضرورتو حضور ﷺ نے فرمایا کہ’’ آپس کا سلوک سب سے افضل ہے اور آپس کی لڑائی دین کو مونڈنے والی ہے ۔یعنی جیسے استرے سے سر کے بال ایکدم صاف ہوجاتے ہیں۔آپس کی لڑائی سے دین بھی اسی طرح صاف ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ تمام حجاج کرام کے حج کو ہر مرحلہ پر آسان فرماے،قبولیت سے سب کو سرفراز فرمادے ۔حج کے دوران بھی اور واپس جاکر بھی ہمیشہ آپس میں سلوک ومحبت والفت کو اپنائیں ۔ نزاع وجدال اور جھگڑوں سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچائیں۔اسی سے ان شاء اللہ وحدت امت قائم ہوگی اور اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ امت کی عزتِ رفتہ واپس فرمائیں گے اور امت مسلمہ کو غالب ومنصور فرمائیں گے ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔