فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے۔ وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے اور جب انہیں سرکاری کاموں سے ذرا سی فرصت ملتی تو کتاب آستین سے نکال کر پڑھنے لگ جاتے۔
اسماعیل بن اسحاق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔
ابن رشد اپنی شعوری زندگی میں صرف دو راتوں میں مطالعہ نہیں کر سکے۔
امام ابن جریر طبری ہر روز 14 ورقے لکھ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استفادے کے بغیر نہیں گزارا۔
سارٹن نے تاریخ العلوم میں البیرونی کو دنیا کے بہت بڑے عالموں میں شمار کیا ہے۔ ان کے شوق علم کا یہ حال تھا کہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پیشتر ایک فقیہ سے جو ان کی مزاج پرسی کے لئے آئے ہوئے تھے علم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔
امام الحرمین ابو المعالی عبد الملک الجوینی امام فقیہ اور مشہور متکلم امام غزالی کے استاد تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں سونے اور کھانے کا عادی نہیں ہوں۔ مجھ کو دن اور رات میں جب بھی نیند آتی ہے سو جاتا ہوں اور جس وقت بھوک لگتی ہے کھانا کھا لیتا ہوں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا، پڑھنا اور پڑھانا تھا۔
علامہ ابن الجوزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک ہزارکے لگ بھگ ہے۔ وہ اپنی عمر کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ وہ قلم کے تراشے سنبھال کر رکھ چھوڑتے تھے چنانچہ ان کی وفات کے بعد ان تراشوں سے پانی گرم کر کے ان کو غسل دیا گیا۔
امام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر 30 جلدوں میں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے، میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا ہوں۔
علامہ شہاب الدین آلوسی نے رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پہلے حصہ میں آرام و استراحت فرماتے، دوسرے میں اللہ کو یاد کرتے اور تیسرے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔