ہمیں اپنے نفس کا حساب کرنا چاہئے کہ اس نے کیا نیکیاں کمائیں اور برائیوں میں پڑ کر کیا گنوایا ، ہمیں اپنا روحانی بجٹ بھی تیار کرنا چاہئے

محمد منیر قمر ۔ الخبر

نئے اسلامی سال کا آغاز ہو تو عرب وعجم میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہوں، انہیں حقیقی معنوں میں ہجری سال نو کے آغاز پر خوشی ہوتی ہے کیونکہ تاریخ ِ اسلام کا تمام تر سرمایہ انہی قمری مہینوں اور ہجری تاریخ سے ہی وابستہ ہے۔ ارکان ِ اسلام، حج و روزے کا حساب اسی اسلامی کیلنڈر سے کیا جاتا ہے۔ عید و قربانی جیسے شعائرِ اسلام کا تعلق بھی اسی اِسلامی تقویم کے ساتھ ہے مگر یہ ایک امر واقع ہے کہ آج کا مسلمان اپنے ماضی کی شاندار روایات کو نظر انداز کرتا بلکہ بھولتا جا رہا ہے اور اپنے نمایاں اسلامی تشخص کو قائم رکھنے میں ناکام ہو رہا ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی مگر واضح جھلک ہمارے اس رویئے میں موجود ہے کہ آج ہمارے سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور نجی و پبلک اداروں میں انگلش کیلنڈر کا استعمال اس قدر عام ہے کہ لوگ اپنی اصلی تاریخ سے نا آشنا ہو رہے ہیں۔ آپ کبھی سروے کرکے دیکھیں تو شاید 10 فیصد مسلمان بھی ایسے نہ ملیں جنہیں روز ِ رواں کی ہجری تاریخ کا پتہ تو درکنار، ہجری سال کے 12 مہینوں کے نام ہی آتے ہوں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہمارے اجتماعی کردار کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انگلش کیلنڈر کے پہلے مہینے کا آغاز ہو تو ہم ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ کہتے ہوئے ایک دوسرے کو ملتے ہیں لیکن اس کے برعکس جب ہمارا اپنا اسلامی سال شروع ہوتا ہے تو ’’سال ِ نو مبارک ‘‘ یا ’’ ہیپی نیو ائیر ‘‘ کہنا تو کجا، یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا اپنا سال شروع ہو چکا ہے۔

زیادہ سے زیادہ اس دن کی سرکاری چھٹی اور تاریخ کے ایک المناک سانحہ و حادثہ شہادت ِ حضرت حسین ؓ  کی وجہ سے صرف اتنا معلوم ہو جا تا ہے کہ محرم شروع ہو گیا ہے۔

اسلامی سال ِ نو کا آغاز بڑے ہی مہذب و مقدس انداز سے ہونا چاہئے کیونکہ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ بڑی فضیلت و عظمت والا ہے چنانچہ نبی اکرمﷺ نے ماہ ِ محرم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے اسے ’’شہراللہ ‘‘ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو حرمت والا مہینہ کہا ہے، جیسا کہ سورہ التوبہ میں ارشاد ِ ربانی ہے :

’’جس دن سے اللہ تعالیٰ نے یہ زمین و آسمان بنائے ہیں، تبھی سے اللہ کی کتاب میں مہینوں کی کُل تعداد 12 ہے، اور ان میں سے 4 مہینے حرمت والے ہیں۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی تعیین کے مطابق اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ محرم انہی 4 حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جبکہ دوسرے 3 مہینے رجب، ذو القعدہ اور ذ ی الحجہ ہیں۔ اسلامی سال ِ نو کے ہلال ِ محرم کا طلوع ہونا اپنے ساتھ کئی پیغامات لاتا ہے :

سب سے پہلے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری عمر کا ایک اور سال مکمل کر دیا ہے۔ بالفاظ ِ دیگر تمہاری کل عمر میں سے ایک سال اور کم ہوگیا ہے اس لئے ہمیں شاداں و فرحاں ہونے کے ساتھ فکر مند بھی ہونا چاہئے کہ ہماری عمر کا بیلنس کم ہو رہا ہے۔ سال ِ نو کے آغاز کے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے یہ دعائیں مانگنا چاہیئے کہ:

اے اللہ ! اس نئے سال کو ہمارے لئے انفرادی و اجتماعی مسرتوں اور قومی و ملّی خوشیوں کا پیامبر بنا دے، اے اللہ ! ہمارے الجھے ہوئے پیچیدہ انفرادی، جماعتی اور ملکی و عالمی مسائل کو سلجھا دے، اے اللہ ! ہمیں صحت و عافیت اور جانی و مالی خوشی عطافرما، اے اللہ ! اس نئے سال میں ہمیں سال ِ ماضی کی نسبت کارِ خیر اور نیکی و تقویٰ کی زیادہ توفیق سے نواز، اے اللہ ! ہمارے جو بھائی فلسطین، افغانستان، ہند، کشمیر، اریٹریا، فلپائن، چین، روس اور کسی بھی جگہ، سروں پر کفن باندھے جان بکف ہو کر عقیدہ توحید و ختمِ نبوت ، شعائر ِ اسلام اور مقامات و مشاعِر مقدسہ کے تحفظ کے لئے بر سرپیکار ہیں، انہیں فتح و نصرت سے سر فراز کر اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔ 

اسلامی سال ِ نو کے آغاز پر ذکر ِ الٰہی کی کثرت کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی ہمت و فکر کے مطابق اپنے سال ِ ماضی کا بھر پور جائزہ لے کہ اس نے ارکان ِ اسلام اور اللہ و رسولﷺ کے احکام میں کہاں کہاں کوتاہی کی ہے؟ اور کن کن نیک کاموں میں حصہ لیا ہے۔ اس طرح اپنے ماضی کے آئینہ میں جھانک کر مستقبل کے لئے بہترین پروگرام مرتب کرے اور تجدید ِعہد کرے کہ آج سے ہی سابقہ تمام کوتاہیوں کا یکے بعد دیگرے ازالہ کرتا جاؤں گا اور اعمالِ خیر میں بیش از پیش حِصہ لوں گا۔

اللہ والے تو ہر رات کو سونے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں کہ آج ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور عام دنیا داری اصول بھی ہے کہ ہر تاجر اور کاروباری آدمی اپنی آمد و خرچ اور پروفٹ کے روزانہ و ماہانہ حساب کے ساتھ ساتھ سالانہ حساب کرکے کلوز اَپ کرتا ہے۔ اس مالی حساب کتاب کی طرح ہی ہمیں اپنے نفس کا حساب بھی کرنا چاہئے کہ اس نے نیکیاں کر کے کیا کمایا اور برائیوں میں پڑ کر کیا گنوایا ہے اور جس طرح تجارتی و مالی امور میں ہر نئے سال کا بجٹ تیار کیا جاتا ہے، اُسی طرح ہی سال ِ نو کے آغاز پر ہمیں اپنا روحانی و عملی بجٹ بھی تیار کرنا چاہئے۔

ماہ ِ محرم کے ساتھ ہی ہم چونکہ اپنی عمر ِ عزیز کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں لہٰذا ہمیں اس نئے سال کا پُر جوش اور بھر پور استقبال کرنا چاہئے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سال ِ نو کا افتتاح روزے رکھ کر کیا جائے جو شکران ِ نعمت بھی ہوں گے اور مسنون طریقہ بھی یہی ہے۔ اور خاص طور پر ماہ ِ محرم کے روزوں کے بارے میں صحیح مسلم اور سنن ِ اربعہ میں ہے کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا :

’’رمضان المبارک کے روزوں کے بعد افضل روزے کون سے ہیں ؟۔‘‘

تو آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ کے اس مہینے کے روزے جسے تم محرم کہتے ہو ۔‘‘

 اگر زیادہ نہ ہوسکیں تو کم از کم ایام ِ محرم کے سر تاج دن ’’یومِ عاشوراء‘‘ کا روزہ تو ضرور ہی رکھنا چاہئے کیونکہ اس کی فضیلت کے بارے میں صحیح مسلم، ترمذی، ابن ِ ماجہ اور مسند احمد میں ارشاد ِ نبوی ﷺ ہے :

’’میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ یوم ِ عاشوراء کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔‘‘

بخاری و مسلم، ابو داؤد و نسائی اور ابن ِ ماجہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے یہودیوں کو یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا تو پوچھا:

’’تم لوگ جس دن کا روزہ رکھتے ہو یہ کیا ہے ؟۔‘‘

تو انہوں نے بتایا کہ یہی وہ مباک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ان کے دشمن (فرعون اور اس کے لشکر ) سے نجات دلائی تھی۔ اس پر بطورِ شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) پر(بحیثیت نبی) میرا حق تم سے زیادہ ہے۔ ‘‘

پھر آپﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

لیکن یہودیوں کے روزہ کی مشابہت دور کرنے کے لئے یومِ عاشوراء سے ایک دن پہلے ایک روزہ رکھنا مسنون ہے کیونکہ صحیح مسلم، ابو داؤد اور مسند احمد میں ارشادِ نبویﷺ ہے:

’’اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو میں 9 محرم کا روزہ بھی ضرور رکھوں گا۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عباس  ؓ کا ارشاد ِ گرامی ہے:

’’مگر اگلا سال آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ وفات پاگئے۔ ‘‘

بہر حال آپ ﷺ نے خواہش فرمائی تھی لہٰذا یہ امر مسنون ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق اور بیہقی میں بسند صحیح حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  کا قول بایں الفاظ موجود ہے:

’’9 اور 10 (محرم) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔‘‘

ان احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ 10 محرم کے ساتھ 9 محرم کا روزہ رکھنا مسنون ہے۔ مسند احمد و بیہقی میں بسند ِ ضعیف مروی ہے کہ:

  ’’ یوم ِ عاشوراکا روزہ رکھو اور یہود (کے طریقہ) کی مخالفت کرو اور وہ اس طرح کہ اس (10 محرم) سے پہلے یا اس کے بعد بھی ایک روزہ رکھ لیا کرو۔‘‘

غرض یہ روایت تو ضعیف ہے البتہ صحیح احادیث کی رو سے صرف 10 محرم کے روزے کا ثواب گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور ساتھ ہی 9 محرم کا روزہ بھی رکھ لینا چاہئے۔

یہاں دو باتیں نہایت قابل ِ توجہ ہیں :

پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے سور ۃ التوبہ کی آیت 36 میں فرمایا ہے:

’’ جب سے اُس نے زمین و آسمان بنائے ہیں، تبھی سے اس کی کتاب میں مہینوں کی کل تعداد 12 ہے اور ان میں سے 4 مہینے حرمت والے ہیں۔‘‘

اور نبیﷺ کی تعیین کے مطابق متفقہ طور پر محرم بھی ان 4 مہینوں میں سے ایک ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں مذکور ہے کہ یوم ِ عاشوراء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم کو اس وقت کے ظالم حکمران فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی، جس کے شکرانے کے طور پر انہوں نے روزہ رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماہ ِ محرم یا یوم ِ عاشوراء نواسۂ رسول ﷺ  حضرت حسین ؓ  کی شہادت سے متعارف نہیں ہوئے بلکہ ماہ ِ محرم تخلیق ِ کائنات کے دن سے اور یوم ِ عاشوراء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے ہی حرمت والے اور معروف ہیں ۔