یہ بھوکے کیلئے غذا، مریض کیلئے شفا، ضرورت مند کیلئے حاجت روا، خوفزدہ کے لئے امن و امان اور پریشان حال کیلئے راحت و اطمینان ہے
مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کے ارد گرد بہت ساری نشانیاں اور اسلامی و تاریخی یادگاریں ہیں۔ ان میں آب زمزم کا کنواں ایک محیر العقول چشمۂ حیات، اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور حجاج و زائرین کے لئے مفید و نادر تحفہ ہے۔ عقلِ بشری اسکے اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھانے سے قاصر اور اس سے وابستہ خواص و فوائد کے احاطے سے ناواقف ہے۔
اس آب حیات کے پینے والے کا ارادہ و نیت اس کے تاثیر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر مقصد سیرابی ہو تویہ پینے والے کے لئے سامانِ آسودگی، حصول علم ہو تو بصیرت کشا، شفا یایابی ہو تریاقِ امراض، مصیبت سے نجات ہو تو مشکل کشا، اللہ کی نصرت و مدد کا حصول ہو تو حامی و ناصر، کسی مقصد کا حصول ہو تو اس میں معین و مددگار، غرض جس مقصد، ارادے و نیت سے یہ مبارک پانی پیا جائے، اللہ کے حکم و مشیت سے اس مقصد کی برآری اور نیت و ارادے میں کامیابی کا سبب بنتا ہے۔
یہ پانی بھوکے کیلئے غذا، مریض کے لئے شفا، ضرورت مند کے لئے حاجت روا، خوف زدہ کے لئے امن و امان اور پریشان حال و پشیمان کے لئے سببِ راحت و اطمینان ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ نشانی مقام ابراہیم سے متصل اور کعبہ شریف میں نصب حجر اسود کی جانب سے 18 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے 3 سوتے ہیں، ایک سوتا حجر اسود کے مقابل ہے، یہ اصل سوتا کہلاتا ہے، دوسرا سوتا جبل ابی قبیس اور صفا پہاڑی کے رخ پر اور تیسرا سوتا مروہ پہاڑی کی جانب ہے۔
آب زمزم جنتی پانی ہے، اس کا دوسرے پانیوں کی طرح زیر زمین ذخیرہ ٔآب سے قطعا ً کوئی تعلق نہیں، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ چار بڑے اور طاقتور پمپوں کے ذ ریعے بلا توقف 24 گھنٹے فی منٹ 8 ہزار لٹر کے حساب سے اس کا پانی نکالا گیا مگر اس کے لیول میں کوئی کمی نہیں آئی۔
دوسرے اس پانی کا نہ رنگ بدلتا ہے اور نہ مزہ اور نہ ہی طویل مدت تک خراب ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے آب زمزم کو ایک دینی ذخیرہ تصور کرتے ہوئے اس کے چشموں کی حفاظت و نگرانی کا ذمہ وزارت برائے پٹرولیم و معدنی ذخائر کے سپرد کر رکھا ہے۔ آب زمزم کا کنواں دنیا میں تنہا پانی کا ایسا کنواں ہے جو وزارت پٹرول کی زیر نگرانی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے شیر خوار بچے حضرت اسماعیلؑ اور بیوی حضرت ہاجرہ کو بیت اللہ کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر جانے لگے تو انکی اہلیہ انکے پیچھے لپکیں اور کہا یہ آپؑ ہم لوگوں کو کہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ وہ یہ سوال دہراتی رہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام لاپروا آگے بڑھتے رہے۔
آخر حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے سوال کیا ’’کیاآپ اللہ کے حکم سے ایسا کر رہے ہیں؟‘‘ حضرت ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ ہاں۔ حضرت ہاجرہ ؑنے اطمینان سے بھرپور جواب دیا کہ ’’ تب تو اللہ ہماری حفاظت کرے گا‘‘ حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے لئے ایک تھیلے میں کچھ کھجوریں اور پانی کاایک مشکیزہ چھوڑا، دونوں جلد ہی ختم ہوگئے۔
بھوک اور اس سے زیادہ پیاس نے ماں بیٹے کو پریشان کرنا شروع کیا۔ ماں سے بچے کی پیاس کی شدت دیکھی نہیں جارہی تھی، بے چین ماں کبھی صفا اور کبھی مروہ پہاڑی پر جاکر دیکھتی، شاید کوئی نظر آجائے یا کہیں پانی ہی دکھ جائے، صفا و مروہ کے انہوں سے7 چکر لگائے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اسی لئے حج اور عمرہ کرنے والے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ آخری بار جب وہ مروہ پر پہنچیں تو انہوں نے کئی بار ایک آواز سنی ’’فریاد ہے اے بھلائیوں والے‘‘ـ پھر انہوں نے زمزم کے مقام پر حضرت جبریل ؑ کو دیکھا۔ انہوں نے اپنا پر مارا اور پانی ابل پڑا۔ اس کثرت سے پانی کو ابلتے دیکھا تو وہ حیران رہ گئیں اور جلدی جلدی اسے روکنے لگیں۔ حضرت جبریل ؑنے کہا : یہ بہت ہے، اسے روکنے کی ضرورت نہیں۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر وہ اسے نہ روکتیں تو آج یہ پانی اوپر ہوتا‘‘ حضرت جبریل ؑنے فرمایا کہ : گھبراؤ نہیں، تمہارے لئے خوف ِ ضیاع نہیں کیونکہ یہاں پر اللہ کا گھر ہے جسے یہ بچہ اور اسکا باپ دونوں مل کر تعمیر کریں گے، اللہ اپنوں کو ہرگز ضائع نہیں کرتاـ
حضرت ہاجرہؑ اپنے بچے کے ساتھ وہاں مقیم رہیں، بنی قحطان کا قبیلہ جرہم مکہ کے قریب مقام کدا سے گزرا ، ان لوگوں نے ایک پرندے کو اوپر چکر لگاتے دیکھا، کہنے لگے یہ پرندہ یقینا پانی کے گرد ہی چکر لگا رہا ہوگا مگر ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وادی میں کہیں بھی پانی کا نام و نشان نہیں۔ حقیقت حال کا پتہ لگانے کے لئے کچھ لوگ اُس طرف گئے اور حضرت ہاجرہ اور ان کے بچے کو آب زمزم کے پاس پایا۔ ان لوگوں نے ان سے اجازت لیکر وہیں سکونت اختیار کرلی۔
کچھ عرصے میں یہ وادی خاصی آباد ہوگئی، خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی۔ قبیلہ جرہم اس وادی میں تقریباً 300 سال رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ دینِ ابراہیمی میں تحریف ہوئی اور بہت ساری حرام کردہ چیزوں کو انہوں نے حلال کر لیا۔ بیت اللہ کی بے حرمتی کی۔ اس کا مال ناحق کھایا اور گناہ کے دوسرے کام کئے۔ مکہ مکرمہ جو کوئی بغرض زیارت یا تجارت آتا ان کے ظلم و ستم کا شکار ہوتا۔
قبیلہ جرہم کی بد اعمالیوں کی سزا کے طور پر آب زمزم کا چشمہ خشک ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر قبیلہ خزاعہ کو مسلط کر دیا جنہوں نے قبیلہ جرہم کے اکثر لوگوں کو اس مقدس دیار سے نکال باہر کیا۔ مکہ مکرمہ پر طویل عرصہ تک خزاعہ کی حکمرانی رہی۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ آب زمزم کے مقام کی شناخت بھی جاتی رہی۔
عبد المطلب بن ہاشم ( رسول اللہ ﷺکے دادا) کا دور آیا۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے الحارث کے ساتھ ملکر چاہ زمزم کی تلاش میں کھدائی کی اور ان کو کامیابی ملی۔ اس وقت سے حاجیوں کو پانی پلانے اور ان کی خدمت کرنے کا شرف اسی خاندان میں رہا۔
زمزم کے بہت سارے نام ہیں جو تقریباً 60 تک پہنچتے ہیں۔ کثرتِ اسماء مسمی بہ کے شرف و عالی مرتبت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ آبِ زمزم قدرت کا ایسا انمول تحفہ اور انعام ہے کہ قدر و منزلت اور خواص و فوائد میں اس سے بہتر دنیا میں کو ئی پانی نہیں پایا جاتا۔

اس کے دوسرے مشہور ناموں میں سے برہ (نیک)، رکضۃ جبرئیل (جبرئیل کی ٹھوکر)، رواء (سیرابی)، شباعہ (آسودگی)، سقیا الحاج (حاجیوں کا پانی) شراب الابرار (نیکوکاروں کا مشروب)، شفاء سقم (بیماری کا علاج)، طعام طعم (بھوکے کی غذا)، طاہرہ (پاک)، عافیہ (عافیت)، کافیہ (کافی) ، مجلیۃ البصر (آنکھ کا نور) اور نافعہ (مفید) ہے۔
آب زمزم کے فضائل و خصوصیات :
٭آب زمزم جنت کے چشموں میں سے ایک ہے ( مصنف بن ابی شیبہ)
٭آب زمزم روئے زمین کا افضل ترین پانی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روئے زمین کا سب سے افضل پانی زمزم ہے، اس میں غذائیت بھی ہے اور مرض سے شفا بھی (طبرانی )
٭آب زمزم کا چشمہ روئے زمین کے سب سے مقدس مقام پر ہے۔
٭زمزم کے چشمے کا وجود اور ظہور حضرت جبریل ؑکے واسطے سے ہوا جو اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔
٭آب زمزم کے ذ ریعے رسول اللہ ﷺ کا قلب اطہر 4 بار مختلف موقعوں پر دھویا گیا یعنی حلیمہ سعدیہ ؓ کے یہاں بکریاں چرا نے کے دوران، آپکے بچپن میں، نبوت و بعثت سے قبل اور واقعہ معراج سے قبل۔
٭آب زمزم خوب سیر ہو کر پینا ایمان کی علامت قرار دیا گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’خوب سیر ہو کر زمزم پینا نفاق سے برأت ہے کیونکہ منافقین اسے خوب سیرابی کی حد تک نہیں پیتے ‘‘
٭آب زمزم خوب سیر ہوکر پینے کے بعد قبولیت ِ دعا کا موقع ہوتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ آب زمزم پینے کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، رزق واسع اور ہر مرض سے شفائے کلی کا سوال کرتا ہوں ‘‘
٭آب زمزم کا پینا بہت سارے امراض سے شفا یابی کا سبب بنتا ہے۔ امام قزوینی اپنی کتاب ’’عجائب المخلوقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آب زمزم بہت سارے لاعلاج امراض سے شفا ہے، اللہ تعالیٰ نے بیشمار انسانوں کو اس کی برکت سے شفا بخشی۔ اما م ثعالبی اپنی کتاب ’’ ثمار القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے امراض سے نجات پانے کے لئے دنیا بھر کے چشموں کا تجربہ کرنے کے بعد آب زمزم سے شفا پائی۔ شفا آب زمزم کی خاصیت ہے کہ جسے رسول اکرم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا ہے، یہ بشارت قیامت تک باقی رہے گی، رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے نیک نیتی اور ایمان و یقین کے جذبے سے جو بھی اسے پئے گا اسے ان شاء اللہ مقصد میں ضرور کامیابی ملے گی۔

٭ قیامت سے قبل سارے چشمے خشک ہو جائیں گے مگر آب زمزم کا چشمہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ ضحاک بن مزاحم کی روایت ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ میٹھے پانی کو قیامت سے قبل اٹھالے گا اور زمزم کے علاوہ سارا پانی زیر زمین چلا جائے گا۔ زمین اپنا سارا سونا چاندی اگل دے گی، ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص تھیلا بھر کر سونا چاندی لیکر گھومے گا اور اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔
اہل مکہ میں یہ رواج عام تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کی تواضع آب زمزم سے کرتے اور اسے پیش کرنے میں تفنن اختیار کرتے، اس کے لئے خاص مٹی اور ریت کی صراحیاں بناتے اور اسے خوشبو اور دھونی میں بساتے پھر اس میں آب زمز م محفوظ کرتے اورٹھنڈا ہونے پر مہمانوں کو خوبصورت نقشین و قلعی شدہ پیالوں میں پیش کرتے۔
سبحان اللّٰہ
پسند کریںپسند کریں