جس سوسائٹی کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے۔

ایک آدمی کی حاجت مندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے۔

مالدار طبقوں کا مفاد عامۃ الناس کے مفاد کی ضد ہوجائے، ایسی سوسائٹی کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی۔

اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو و نما پائے گی۔

اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے اور اگر دوسرے اسباب بھی اس اس صورتحال کے لیے مددگار ہوجائیں تو ایسی سوسائٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں۔

اس کے برعکس جس سوسائٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں۔

جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے اور جس میں باوسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں، ایسی سوسائٹی میں آپس کی محبت، خیر خواہی اور دلچسپی نشو و نما پائے گی۔

اس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتیباں ہوں گے۔

اس میں اندرونی تصادم و نزاع کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائٹی کی نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔

(تفہیم القرآن، از مولانا سید ابو الاعلی مودودی)