وجود کی اس غیر محدود سلطنت کا فرمانروا ایک خدا ہے اور تمام عالم اسی کے مطیع، اسی کے تابع فرمان اور اسی کے آگے سر بسجود ہیں۔

کارگاہِ ہستی کی تمام حرکات و سکنات اسی کے حکم اور اسی کی مرضی کے ماتحت ہیں۔

جتنی چیزیں اس عالم اور دوسرے عالموں میں ہیں، ان سب کا مرجع اسی کی ذات ہے۔

اسی چیز کا نام اسلام ہے جس کے معنی گردن جھکادینے اور تابع و فرمان ہوجانے کے ہیں۔

تمام کائنات اور ان کا ہر ذرہ اپنی فطرت کے لحاظ سے اسی دین اسلام کا پیرو ہے خواہ بطوع ورغبت، خواہ بقہر و جبر۔

اس عالمگیر ناقابل تغیر اور نا آشنائے استثنا قانون میں تمام کائنات کی طرح خود انسان بھی جکڑا ہوا ہے اور کی طبیعت و فطرت بھی اسی خدا کی مطیع و فرمابردار اور اسی دین کی پیرو ہے۔

اس نظریہ کے مطابق تمام موجودات عالم کا جن میں انسان بھی شامل ہے فطری نصب العین اور مقصود و مطلوب اور غایت الغایات حق جل شانہ کی ذات ہے اور سب کا رخ اسی مرکز و مرجع کی طرف پھرا ہوا ہے۔

(اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی، از سید ابو الاعلی موودی)