پروفیسراخترالواسع ۔ انڈیا
اسلامی شریعت کے احکام ڈھکے چھپے نہیں، وہ ہر زبان میں موجود اور ان تک ہر ایک کی رسائی ہے۔ مسجد میں عورتوں کی نماز کے تعلق سے اسلام میں غیرمعمولی توسع ہے جو خواتین کو حق بھی دیتاہے اورآزادی بھی۔
مسجد میں عورتوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہمیشہ سے رہی ہے، خود رسول اللہﷺ کے زمانہ میں خواتین مسجد نبوی میں آ کر نماز اور خطبہ میں شریک ہوا کرتی تھیں اور یہ معمول عہد نبوی کے پورے دور میں رہا ہے۔
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس کی باریک سے باریک تفصیلات موجود ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں نہ صرف نماز اور علمی مجلسوں میں شریک ہوا کرتی تھیں بلکہ وہ سوالات بھی کرتی تھیں اور اپنی رائے بھی دیا کرتی تھیں۔
یہی طریقہ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ممبر پر خطبہ دیتے ہوئے عورتوں کے مہر کی حد مقرر کرنی چاہی تو ایک خاتون نے ہی کھڑے ہو کر اعتراض کیا اور کہا کہ جس چیز کی تحدید اللہ تعالیٰ نے نہیں کی وہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق نے فورا ہی اس خاتون کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ اس واقعہ سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی نماز اور خطبہ میں شریک رہا کرتی تھیں۔

اس سلسلہ میں اسلامی شریعت کا حکم بڑا ہی معقول ہے۔ اس نے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مردوں کے لئے تو لازمی قرار دیا، یعنی اگر وہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھیں اور اپنے گھروں میں تنہا پڑھ لیں تو وہ نماز مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں مانی جائے گی اور ان سے یہ مطالبہ باقی رہے گا کہ وہ مسجد میں آ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ دوسرے لفظوں میں مسجد کے اندر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مردوں کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔
اس کے بالمقابل مسجد میں عورتوں کے لئے نماز میں شرکت کو لازمی اور ضروری نہیں بنایا گیا۔ یہ سہولت اور خصوصی رعایت اسلامی قانون نے عورتوں کو عطا کی ہے، مردوں کو نہیں۔
اسلامی تاریخ کے ہر دور میں عورتوں نے اس خصوصی رعایت اور سہولت کے مطابق اپنی نمازیں ادا کیں، چنانچہ آج ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں، دہلی کی جامع مسجد میں، حیدر آباد کی مکہ مسجد میں اور اس طرح کی کسی بھی بڑی مسجد میں خواتین نمازیں ادا کرتی ہیں اور اسی طرح وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے گھروں کے اندر بھی نمازیں پڑھتی ہیں۔
یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ خانقاہوں اور مزارات پر بھی عورتوں کی حاضری دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اول صدی کے مقابلے میں یہ عہد فتنوں کاعہد ہے اورخواتین کے حوالے سے تمام سروے اور احوال وقرائن یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ خواتین کی عفت کوہرآن خطر ہ رہتا ہے، چنانچہ اسی تناظر میں صحابہ کے ہی عہد میں خواتین کو گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی اور بعد کے دنوں میں فقہا و مجتہدین نے عورتوں کو گھروں میں ہی نماز پڑھنے کی تلقین کی، تاہم مسجد میں عورتوں کو نماز پڑھنے کی ممانعت آج بھی نہیں بلکہ بہت سی مساجد میں خاص طورپر جمعہ کی نمازمیں عورتیں شریک ہوتی ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام کے قوانین میں مسلم خواتین کو جو مقام بلند اور فطری حقوق عطا کئے گئے ہیں، وہ دوسرے سماج کی خواتین کی بھی ضرورت ہے، اور ان کو اپنا کر معاشرے میں خواتین کی عزت وحیثیت کو دو بالا کیا جا سکتا ہے۔ پس میڈیا کے شور شرابوں اور چند مفاد پرست عناصر کے نا معقول ہنگاموں سے اوپر اٹھ کر سچائی کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ اسلام اور اوراسلام میں خواتین کے حقوق کے تئیں آگہی ہوسکے۔