محمد منیر قمر ۔ الخبر
اتباعِ رسول ﷺ کا مفہوم و مقصود یہ ہے کہ جو نبی اکرم ﷺ نے خود کیا یا کرنے کا حکم فرمایا یا کسی کو کرتے دیکھا اور اسے منع نہ فرمایا ہو اسے اپنایا جائے۔
جو کام نہ آپ ﷺ نے خود کیا، نہ کرنے کا کسی کو حکم دیا بلکہ اس سے روکا ہو، ایسا کام کرنے سے اجتناب
کیا جائے۔
اسی کا نام اتباع رسولﷺ یا اتباع سنت ہے جو کہ ہمارے لئےذریعہ نجات ہے۔ کوئی کام بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ نظر آتا ہو، اگر وہ سنت کے مطابق نہیں تو نا مقبول ہے۔
ایسے ہی انتہا پسندی کا رجحان بھی شریعت اسلامیہ کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ مثلاً ایک کام تو اچھا اور نیک ہے مگر اس کی ادائیگی میں ایسا رویہ اختیار کرلیا کہ وہ رسول اللہﷺ سے پیش قدمی کے ضمن میں آجائے تو یہ بھی روا نہیں کیونکہ سورہ الحجرات کی پہلی آیت ہی میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کر نے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول (ﷺ) سے آگے مت بڑھو (یعنی ان کے احکام سے پیش قدمی مت کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس انتہا پسندی یا پیش قدمی کاایک واقعہ کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ صحیح بخاری ومسلم شریف میں حضرت انسؓ سے مروی ہے :
تین آدمی رسول اللہ(ﷺ) کی ازواج مطہرات (میں سے کسی) کے پاس آئے اور ان سے نبی(ﷺ) کی عبادت کے بارے میں پوچھا، جب انہیں آپﷺ کی عبادت کے بار ے میں بتا دیا گیا، تو انہوں نے کہا :
نبی اکرم (ﷺ) (کی اس عبادت) کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہے؟ آپ (ﷺ) کے تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر رکھے ہیں (تب بھی آپﷺ اتنے عبادت گزار ہیں)
لہذا ان میں سے ایک نے کہا :
میں تو ہمیشہ ساری رات ہی نماز پڑھا کروں گا۔
دوسرے نے کہا :
میں تو بلا ناغہ روزہ رکھتا رہوں گا۔
اور تیسرے نے کہا :
میں (کثرت عبادت کی خاطر) عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا او ر کبھی شادی نہ کروں گا۔
نبی اکرمﷺ کو یہ باتیں پہنچیں تو ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
کیا وہ تم ہی ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ مجھے اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ والاہوں لیکن پھر بھی میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کر تا ہوں (یعنی کبھی نہیں بھی رکھتا ) اور میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں کے ساتھ شادی بھی کرتا ہوں۔
اور اپنی عبادت و عمل کا طریقہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:
جس نے میرے اس طریقے سے بے رغبتی کی وہ میری امت میں سے نہیں۔ (مشکاة )۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ اگر کسی نے نبی اکرمﷺ کے طریقہ عبادت یا سنت کی خلاف ورزی کی اور افراط و تفریط کا شکار ہوا تو نہ صرف اس کا وہ عمل نا مقبول ہے بلکہ ساتھ ہی وہ ارشاد نبوی ”وہ میری امت میں سے نہیں“ کا بھی مصداق ہوگا۔

جب کوئی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ ایمان باللہ اور توحید الہٰی کے ساتھ ساتھ نبی اکرمﷺ کی رسالت کا بھی اقرار کر تا ہے، یہ اقرار اس پر واجب کر دیتا ہے کہ وہ آپﷺ کے احکام و فرمودات کی اطاعت کرے اور آپﷺ کے منع کردہ فرمودات سے مکمل احتراز و اجتناب کرے، جیسا کہ سور ة الحشر کی آیت 7 میں ارشاد الہٰی ہے :
تمہیں رسول اللہ( ﷺ) جو حکم دیں اسے اپنالو اور جس کام سے روکیں اس سے باز آجاو۔
محمد رسول اللہﷺ کا اقرار یہ مطالبہ کرتا ہے کہ امور دینیہ میں اپنی مرضی اور من مانی کی بجائے سنت رسولﷺ کے مطابق عمل کیا جائے ، آپﷺ کے تابناک اسوہ کے مطابق زندگی گزاری جائے اور آپﷺ کے احکام و اوامر کی مخالفت کر کے عذاب الہٰی کو آواز نہ دی جائے کیونکہ سورہ ا لنور کی آیت 63 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
نبی اکرم(ﷺ) کی مخالفت کر نے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ کسی فتنے کا شکار نہ ہوجائیں یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
محمد رسول اللہ ﷺ کا اقرار یہ تقاضا کرتا ہے کہ زندگی بھر پیش آنے والے ہر معاملہ میں نبیﷺ کے فرمان کو منصف اور حکم تسلیم کیا جائے ورنہ ایمان کی سلامتی خطرے میں ہے، سورہ النساءکی آیت 65 میں ارشاد الہٰی ہے:
(اے نبیﷺ)! تیرے رب کی قسم ہے کہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تمام اختلافات میں آپ (ﷺ) کو منصف نہ مان لیں۔
سرور کائناتﷺ کے قول و عمل کا نام ہی”سنت “ ہے اور جو مسلمان آپ ﷺ کی صحیح اور ثابت شدہ سنت کے مطابق زندگی گزار رہا ہو،وہی اہل سنت ہے اور وہی اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بھی ہے کیونکہ بخاری شریف میں ارشاد نبوی ہے :
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔
جو شخص عبادات کے معاملہ میں من مانی کرے، نبی اکرمﷺ کے ارشادات کو مد نظر نہ رکھے اور بعض ایسے کاموں کو بھی دین اور ثواب سمجھ کر بجالائے جو آپﷺ نے نہ کئے ہوں اور نہ ہی کر نے کا حکم فرمایا ہو، وہ کام باعث اجر و ثواب نہیں بلکہ موجب عتاب و عذاب ہیں۔
کیوں کہ ہر وہ کام جو نبی اکرمﷺ کے عہد مسعود کے بعد دین میں داخل کیا گیا ہو مگر حقیقتاً دین سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، ایسے ہی کام کو شرعی و فقہی اصطلاح میں ”بدعت“ کہا جاتا ہے جس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
یہاں ایک بات بطور خاص ذہن نشین رہے کہ شرعاً صرف وہ کام بدعت کہلاتا ہے جو :
نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک کے بعد نیا ایجاد کیا گیا ہو اور سنت رسولﷺ میں اس کی کوئی نظیر نہ ہو۔
وہ کام جودین میں داخل سمجھا جاتا ہو او ر اسے باعث اجر و ثواب اور ذریعہ تقریب بھی مانا جائے۔
البتہ وہ کام جو نیا تو ضرور ہے مگر جزو دین شمار نہیں کیا جاتا، اسے ”بدعت“ نہیں کہا جائے گا۔
اس طرح مختلف قسم کی تمام مفید و مباح ایجادات بدعت کی تعریف میں سے خارج ہو جا تی ہیں جو اگرچہ عہد نبوت کے بہت بعد وجود میں آئیں مگر انہیں کار ثواب، باعث تقرب الی اللہ اور دین کا جزو تو کسی نے قرار نہیں دیا، مثلاً بس، کار، موٹر سائیکل کی سواری کرنا، اذان و جماعت اور خطبہ کے لئے لاوڈ اسپیکر کا استعمال، روشنی کے لئے ٹیوب یا بلب کا استعمال، عینک لگانا، گھڑی باندھنا وغیرہ امور بدعت کے ضمن میں نہیں آتے۔ بدعت صرف وہی کام ہو تا ہے جونیا بھی ہو اور جسے دین کا جزو یا باعث ثواب بھی سمجھا جائے۔