فرمان ربانی ہے :
(إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ )[يس : 12]
ہم یقینا ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں، جو کچھ افعال انہوں نے کئے ہیں وہ سب لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چهوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں، ہر چیز ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے.
حضرت علامہ سعدی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
{ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى }
یعنی موت کے بعد انہیں زندہ کرکے ان سے ان کے اعمال کا حساب لیں گے.
{ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا }
یعنی زندگی میں خیر و شر میں سے جو کچھ انہوں کیا اسے لکھ رہے ہیں.
{ وَآثَارَهُمْ }
یعنی جو آثار انہوں نے اپنے پیچھے چهوڑے ہیں خواہ وہ خیر میں سے ہو یا شر میں سے یا وہ اعمال جن کا وہ سبب بنے.
یا وہ اعمال جو ان کے افعال یا اقوال کی وجہ سے پیچھے رہ گئے.
خواہ وہ کوئی خیر کا عمل ہو جو ان کی وجہ سے کسی نے کیا.
یا کوئی علم جو انہوں نے کسی کو سکھایا.
یا کسی کو وعظ و نصیحت کی.
یا کسی کو نیکی کی تلقین کی.
یا کسی کو برائی سے روکا.
یا کسی ذریعے سے علم پھیلایا.
یا کوئی بھی ایسی نیکی کی یا لوگوں کو اس کی تلقین کی.
یہ سب ان کے آثار ہیں جو وہ اپنے پیچھے چهوڑ کر جاتے ہیں.
اسی طرح برائی کے کام بھی ہیں خواہ وہ خود کرتے ہیں یا اس کی وجہ بنتے ہیں.
ان سب اعمال پر انہیں سزا یا جزا ملے گی.
(حوالہ : تفسير السعدی)