عبد المالک مجاہد ۔ ریاض

مجھے رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیں، جہاں چاہیں وہ اپنی مرضی سے میری شادی کرادیں،وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے

سیدنا جلیبیب ایک انصاری صحابی تھے جو مالدار تھے، نہ خوبصورت، کسی بڑے قبیلہ سے تعلق تھا نہ ہی کسی منصب پر فائز تھے مگر ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اللہ کے رسولﷺ سے اور اللہ کے رسولﷺ ان سے محبت کرتے تھے۔

ایک دن اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اس ساتھی کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا :

جلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟۔

سیدنا جلیبیب ؓجواب میں عرض کرتے ہیں :

اللہ کے رسولﷺ! مجھ جیسے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کون کرے گا۔

اب ذرا اللہ کے رسولﷺ کے اخلاق کریمہ کو ملاحظہ کریں کہ آپﷺ اپنے اس فقیر صحابی کوکس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور اپنی بات کو دہرا رہے ہیں :

جلیبیب! شادی نہیں کرو گے؟۔

وہ پھر جواباً عرض کرتے ہیں :

اللہ کے رسولﷺ! بھلا میرے ساتھ شادی کون کریگا۔ میرے پاس نہ مال ودولت، نہ حسن وجمال نہ جاہ و منصب ہے۔

مگر رسالت مآبﷺکی نظر اس کے دنیاوی معیار پر نہیں بلکہ اس کی دینداری اور للہیت پر ہے۔ آپﷺ تیسری مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرا رہے ہیں :

جلیبیب! تم شادی نہیں کرو گے؟

وہ جواب میں پھر اپنا وہی عذر پیش کر تے ہیں :

اللہ کے رسولﷺ! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ میرے پاس ما ل و دولت نہیں، میرا خاندان کوئی معروف اور بڑا خاندان نہیں۔ میں خوبصورت بھی نہیں نہ ہی میرے پاس کوئی منصب ہے۔

تب اللہ کے رسولﷺ اپنے ساتھی کی مایوسی کو خوشی میں تبدیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 جلیبیب! فکر نہ کرو، تمہاری شادی میں خود کراوں گا۔

سیدناجلیبیبؓ نے کہا :

مجھ بے مایہ سے تعلق قائم کر کے کون خوش ہوگا۔

آپ ﷺ نے اُن سے فرمایا :

نہیں جلیبیب! تم اللہ کے نزدیک بے قیمت نہیں ہو، تمہاری وہاں بڑی قدر و منزلت ہے۔

اسی دوران ایک دن آپﷺ نے فرمایا :

جلیبیب! فلاں انصاری کے گھر جاو اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسولﷺ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرماتے ہیں: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو۔

سیدنا جلیبیبؓ خوشی خوشی اس انصاری کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دروازہ پر دستک دی، گھر والے اندر سے پوچھتے ہیں کون؟ جواب دیا: جلیبیب۔ گھر والے کہتے ہیں: کون جلیبیب؟ ہم تو تمہیں نہیں جانتے۔

گھر کے مالک انصاری صحابی باہر نکلے اور پوچھا : کیا چاہتے ہو، کہاں سے اور کس مقصد سے آئے ہو؟

جلیبیب جواباً عرض کرتے ہیں : اللہ کے رسولﷺ نے آپ لوگوں کو سلام بھیجا ہے۔ انصاری صحابی حیرت سے کہتے ہیں :

اللہ کے رسولﷺ نے مجھے سلام بھیجا ہے، ارے یہ تو میرے لیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔

 خوشی سے سرشار ہوکر انہوں نے گھر والوں کو بتایا۔ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

پھرسیدنا جلیبیب ؓ نے کہا :

اللہ کے رسول ﷺ نے تمہیں سلام کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو۔

صاحب خانہ نے یہ بات سنی تو سناٹے میں آگئے۔ یہ شخص میرا داماد بنے گا؟ انہوں نے سوچا : نہ مال ودولت نہ خوبصورتی، نہ بڑا خاندان۔ کہنے لگے : ذرا ٹھہرو! میں اپنے گھر والوں سےمشورہ کرلوں۔

رسول اللہﷺ کے یہ انصاری صحابی گھر کے اندر گئے، اہلیہ کو بلایا اور رسول اللہﷺ کا پیغام سنایا کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی شادی جلیبیب سے کر دو۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ ساتھ والے کمرے میں پردے کے پیچھے ان کی بیٹی بھی ماں باپ کی گفتگو سن رہی تھی۔

ماں گویا ہوئی : جلیبیب کے ساتھ شادی کیسے کر دوں۔ اپنی بیٹی ایک ایسے شخص کے سپرد کر دوں جو خوبصورت بھی نہیں، مالدار بھی نہیں اور بڑا خاندان بھی نہیں۔ ہم نے تو فلاں فلاں خاندانوں کی طرف سے آنے والے رشتوں کو مسترد کر دیا تھا۔

میاں بیوی آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

بیٹی بھی پردے کے پیچھے کھڑی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہی تھی۔

جب سیدنا جلیبیبؓ نا امید ہو کر واپس جانے لگے تو لڑکی نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جھکی ہوئی نگاہوں سے والدین سے مخاطب ہو کر آہستہ سے کہنا شروع کیا :

کیا آپ لوگ اللہ کے رسولﷺ کا حکم ٹالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟

قار ئین کرام! اس بچی کی سوچ فکر اور محبتِ رسولﷺ کو ہزار مرتبہ داد دیجیے، کہنے لگی : مجھے رسول اللہﷺ کے سپرد کر دیں، جہاں چاہیں وہ اپنی مرضی سے میری شادی کر دیں، وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے۔

والدین نے بھی سر جھکا دیا۔ تھوڑی دیر پہلے تک ان کے ذہن میں نہ تھا کہ وہ اس رشتہ کو قبول نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کو نظر اندازکرنے والے بن جائیں گے۔ وہ اپنی بیٹی کی عقل ودانش اور اس کے خوبصورت فیصلے پر راضی ہوگئے۔ مطمئن اور خوش باش سیدنا جلیبیب پیغام پہنچا کر واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی اُس ذہین و فطین اور سمجھدار بچی کے والد اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا :

اللہ کے رسول ﷺ !آپﷺ کا پیغام ملا۔ آپﷺ کا حکم، آپﷺ کا مشورہ سر آنکھوں پر، میں راضی ہوں۔ میری بیٹی بھی اور میرے گھر والے سبھی آپﷺکے فیصلے سے راضی اور خوش ہیں۔

رحیم وروف نبیﷺ کو بھی اس بچی کے جذبات اورسمع وطاعت پر مبنی جواب کا علم ہوچکا تھا : اللہ کے رسولﷺ نے اسے ایک عظیم تحفہ عطا فرمایا۔ اپنے مبارک ہاتھوں کو بارگاہ الہٰی میں اٹھالیا اور دعا فرمائی :

اے اللہ !ان دونوں پر خیر وبرکت اور بھلائی کے دروازے کھول دے اور ان کی زندگی کو مشقت اور پریشانی سے دور رکھ۔

اس بچی کی شادی سیدنا جلیبیبؓ سے ہوگئی۔ مدینہ طیبہ میں ایک اور گھر آباد ہوگیا، وہ جلیبیب جو کبھی مفلس اور قلاش تھے اللہ کے رسول ﷺ کی دعا کی برکت سے ان پر رزق کے دروازے کھل گئے۔ یہ گھرانہ بڑا مبارک اور بابرکت ثابت ہوا۔ ان کے مالی حالات بہتر ہوتے چلے گئے۔ اس گھرانے کو اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا صلہ یہ ملا کہ انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خرچیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔