مفتی تنظیم عالم قا سمی ۔ حیدرآباد دکن
رمضان المبارک میں اگرچہ عبادات کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور ویران مسجدیں بھی بھر جاتی ہیں مگر عبادت اللہ تعالیٰ کی ہی کی جاتی ہے، اسی کا خوف دل ودماغ میں بسا ہوتا ہے جو دراصل سارے گناہوں کے چھوڑنے اور نیکیوں کا اصل محرک ہوتا ہے، یہی جذبہ عبادت اور خوفِ الٰہی رمضان کے بعد بھی ہونا چاہئے۔
اس لئے کہ رمضان میں جس طرح اللہ تعالیٰ موجود ہے، وہ سنتا اور دیکھتا ہے، عید کا چاند طلوع ہونے کے بعد بھی وہ اپنی ساری صفات کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پھر ایک مسلمان کے لئے رمضان اور دوسرے مہینوں میں اس قدر تفاوت کہ رمضان کے بعد مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں، مساجد سے ایک دو صف کے علاوہ باقی صفوں کی چٹائیاں اٹھادی جاتی ہیں کہ اب مسلمان جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نماز کے لئے مسجدوں کا رخ نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات نماز فجر اور دیگر بعض اوقات میں امام کو کسی شخص کے آنے کا انتظار رہتا ہے تاکہ جماعت بنائی جائے۔

کیا مسلمانوں کے اس طرز سے احساس نہیں ہوتا اور غیر مسلم یہ نہیں سمجھیں گے کہ مسلمان رمضان کے پجاری ہیں نہ کہ اللہ کے۔ اگر اپنے رب کو سجدہ کرنا اور اس سے تعلق مقصد ہوتا تو وہ رمضان سے پہلے زندہ تھے اور رمضان کے بعد بھی، مبارک مہینہ گزرجانے کے بعد بھی مسجدیں آباد رہنی چاہئے تاہم ایسا نہیں ہوتا۔
رمضان کے بعد پھر وہی جھوٹ، وہی رشوت، وہی ظلم و زیادتی، وہی بد نظری و زنا کاری، وہی شراب نوشی اور ہزاروں جرائم کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور رمضان میں جمع کی ہوئی نیکیاں رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہیں۔
اگر اسکے اسباب تلاش کئے جائیں تو بڑی وجہ یہ معلوم ہوگی کہ رمضان کی حقیقت اور اسکے روح کو ہم نہیں سمجھ سکے یا سمجھنے کے بعد دانستہ طورپر ہم نے اسے اختیار نہیں کیا۔ محض ایک رسم کے طور پر روزہ کی اہم ترین عبادت ادا کرلی گئی۔
روزہ کی فرضیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروﺅں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ (البقرہ 183)۔
اس آیت کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کا حقیقی مقصد بندوں میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے یعنی بندوں کا رب سے تعلق مضبوط ہوجائے، قلب و ذہن میں اس کا خوف رچ بس جائے، روزہ داروں کی سوچ ان کے افکار وخیالات بدل جائیں، گناہوں سے نفرت ہونے لگے اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے۔
رمضان میں ایک بد عمل انسان بھی جب روزہ رکھتا ہے تو تنہائیوں میں بھی وہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے حالانکہ کسی انسان کی نظر اسے نہیں دیکھ رہی ۔

کیا بچے اور کیا عورتیں، سب نماز وں کے پابند ہوجاتے ہیں اور ایک بارونق ماحول بن جاتا ہے۔ قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ جس طرح رمضان میں تمہیں اللہ کا یقین ہوجاتا ہے، ہر وقت اس کا خوف تمہارے خون کے ساتھ پورے بدن میں دوڑتا ہے، اسی طرح رمضان کے بعد بھی یہی خوف طاری رہنا چاہئے اور ایک سچا مسلمان بن کر زندگی گزارنی چاہئے۔
رمضان کا ایک مہینہ در حقیقت اسی کی مشق کرائی جاتی ہے۔ تمام آداب واحکام کی رعایت کرتے ہوئے اگر کوئی شخص 30 ایام روزہ رکھ لے تو یقینی طور پر اس کے بعد اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگا، وہ شخص نیک اور صالح انسان بن کر آسمانی احکام کا حقیقی متبع ہوگا اور اگر روزوں کے آداب کی رعایت نہ کی جائے اور اس کے حقیقی روح کو نہ پہچانا جائے تو یہ روزہ صحیح نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا، جیسا کہ آج کل ایک انسان دسیوں رمضان گزارلیتا ہے مگر اس زندگی کے آئینے میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا، رمضان کے بعد بے راہ روی اور گناہوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
رمضان کی آمد سے قبل جگہ جگہ استقبالِ رمضان او رمضان میں بھی مختلف جلسے جلوس کرائے جاتے ہیں اور قدردانی کی ہزار باتیں کی جاتی ہیں ایک بندہ اپنے آپ کواللہ تعالیٰ کا حقیقی غلام بنالے اور اسے اپنا رب سمجھ لے تو شریعت کے سارے احکام اس کے لئے آسان ہوجائیں گے۔ یہی ساری شریعت کا خلاصہ اور رمضان کا پیغام ہے۔
جس کی زندگی میں رمضان میں تبدیلی آئی اور یہ تبدیلی رمضان کے بعد بھی باقی رہی، اس کا ربط اور تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط رہا تو جان لینا چاہئے کہ توفیق الٰہی نے اسے چن لیا اور رمضان کا غرض اور مقصد اس نے پالیا۔
یہ شخص دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب اور قابل صد رشک ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے رمضان عام دنوں کی طرح گزاردیا یا رسم کے طورپر روزہ رکھا لیا، لوگوں کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھ لی، نہ تو ندامت کا آنسو بہا کر اپنی زندگی کو صاف و ستھرا بنایا اور نہ ہی اس کی روح تک اس کی رسائی ہوئی مگر بہت سے ایسے بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جن کی زندگی کے لئے یہ رمضان انقلاب کا ذریعہ بنا، زندگی کو پاک و صاف بناکر اب وہ ایک سچا مسلمان بن کر زندگی گزارنے کا عہد کرچکے ہیں۔