حیرت ہے، آپ کو اپنی عظمت ورفعت کا احساس کیوں نہیں؟۔

بالکل غلط ہے کہ آپ کی عظمت و رفعت تاریخ کے گمشدہ اوراق ہیں یا دور ماضی کی بھولی بسری داستان۔

آپ کو کونین کی دولت حاصل ہے۔ وہ دولت جس کے مقابلے میں ہر دولت ہیچ ہے۔

جی نہیں، بلکہ اس دولت سے دنیا کی کسی بڑی سے بڑی متاع کا مقابلہ بھی اس کی توہین اور فکر وانش کے ساتھ ظلم ہے۔

پ کیوں بھول رہے ہیں کہ آپ کو محبت رسول ﷺ کی عظیم دولت حاصل ہے۔ آپ کے دل میں محبت رسول ﷺ کی شمع فروزاں ہے۔ حب رسولﷺ ایمان کی علامت ہی نہیں اصل ایمان ہے۔ رسول اکرمﷺ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے کے لئے خدا نے ایک لائحہ عمل دیا ہے۔

یہ لائحہ عمل ہے تو چند لفظوں میں مگر ایسا دشوار اور مشکل کہ زندگی بھر اس پر سرگرم عمل رہنے پر بھی حق یہی کہ اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔

یہ لائحہ عمل رہتی زندگی تک کے واسطے ان سب لوگوں کے لئے کسوٹی ہے جو حبِ رسولﷺ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ لائحہ عمل ہے:

’رسول (ﷺ)کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ (الاحزاب21) ۔

میں چند سوالات رکھتا ہوں، آپ ان کے جوابات اپنے ضمیر سے حاصل کیجئے۔

رسول خداﷺ نے آپ کی خاطر جو لرزہ خیز دکھ اٹھائے، ان کو یاد کرکے کتنی بار آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں؟

رسول خداﷺ کے حالات جاننے کے لئے آپ کتنے بے چین رہتے ہیں؟

رسول اکرم ﷺ کی یاد آپ کو دن میں کتنی بار تڑپاتی ہے؟

آپ کے اخلاق وکردار میں سیرت رسولﷺ کی کتنی جھلک ہے؟

آپ کی گھریلو زندگی کس حد تک ان احکامات کے مطابق ہے جو رسول ﷺ سے آپ کو اس سلسلے میں ملے ہیں؟

آپ اپنے معاشرے میں تعلیمات رسولﷺ کو عام کرنے کے لئے کیا کچھ کر رہے ہیں؟

دنیا کی زندگی میں قدم قدم پر آپ کے سامنے یہ موڑ آتا ہے کہ رسول خداﷺ کا منشا کچھ اور ہے اور دنیا کا منشا کچھ اور، ایسے موقع پر آپ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟

شعور حیات۔ازمحمد یوسف اصلاحیؒ