انسان کے لئے دو پردے ہیں۔ ایک پردہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے اور دوسرا اس کے اور لوگوں کے درمیان ہے۔
جس نے رب کے ساتھ پردے کو چاک کیا تو اللہ تعالیٰ اس پردے کو چاک کرے گا جو اس کے اور لوگوں کے درمیان ہے۔
بندے کا ایک رب ہے جس سے لا محالہ وہ ملاقات کرنے والا ہے اور اس کا ایک گھر ہے جس میں عنقریب وہ منتقل ہونے والا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر اسے چاہئے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات سے پہلے اسے راضی کرلے اور جس گھر میں وہ رہنے والا ہے اس کی تزئین وآرائش کی فکر کرے۔
وقت کا ضیاع موت سے شدید تر ہے۔ وہ اس لئے کہ وقت کا ضیاع بندے کو رب اور آخرت سے غافل کردیتا ہے جبکہ موت اسے دنیا اور اس میں رہنے والوں سے دور کردیتی ہے۔
اس شخص کو دانا وبینا کیسے کہا جاسکتا ہے جس نے دنیا کی چند لذتوں کے لئے جنت کو فروخت کردیا۔
بندوں سے ڈرنے والا ان سے دور بھاگتا ہے اور رب سے ڈرنے والا اس کا مزید قرب حاصل کرتا ہے۔
اگر عمل کے بغیر علم کا حصول قابل نفع ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہودیوں کے احبار کی مذمت نہ کرتا اور اگر اخلاص کے بغیر عمل نافع ہوتا تو اللہ تعالی منافقین کی مذمت نہ کرتا۔
گناہ انسان کی روح کے لئے زخم کے مانند ہیں۔ کبھی کبھی زخم جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔
(الفوائد ۔ از علامہ ابن قیم الجوزیؒ)