عبد الستار خان
سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد کا محتاط اندازہ لگایا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ہم وطنوں کی تعداد 15لاکھ سے متجاوز ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو قانونی طور پر سعودی عرب میں مقیم ہیں جبکہ غیر قانونی طو ر پر مقیم پاکستانیوں کی تعداد کا صحیح اندازہ کسی کو نہیں۔
ان میں سے غالب اکثریت محنت کش ہے جبکہ دفتری ملازمتوں سے منسلک ہونے والوں کی تعداد دوسرے نمبر پر آتی ہے۔
سعودی عرب میں بعض نجی و سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ایسے پاکستانیوں کی تعداد بھی کم نہیں جو کلیدی مناصب پر فائز ہیں۔

سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی قسمت ہے یا پھرخلیجی ممالک کے خصوصی حالات کہ یہاں مقیم پاکستانیوں کی وابستگی مادر وطن کے ساتھ ہے۔ یہ صورت حال امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے برخلاف ہے جو ان ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ پر جاتے ہیں مگر پھر وہاں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ خلیج میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر نہ صرف سب سے زیادہ ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے سرکاری اداروں کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کی ترسیلات زر برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر سے 5گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات سے 3گنا زیادہ ہے۔
ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے صرف 3ماہ کے دوران 1.3بلین ڈالر کی ترسیلات کی ہیں۔ اس رقم کو 15لاکھ پاکستانیوں میں تقسیم کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر پاکستانی ایک ماہ کے دوران اوسط 1085ریال اپنے وطن بھیجتا ہے۔
یقینا یہ بہت بڑی رقم ہے جو ایک طرف وطن عزیز کی معیشت کو سہارا دے رہی ہے تو دوسری طرف وطن عزیز کو غیر ملکی زر مبادلہ فراہم کررہی ہے۔
پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے ان محنت کشوں کی خدمات کا اعتراف کیا ہے نیز ہر حکومت نے سمندر پار پاکستانیوں کو مزید سہولتیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ افسوس کہ تمام وعدوں کے باوجود کسی بھی حکومت نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ۔ ”مزید“ سہولتیں دینے کا وعدہ اپنی جگہ ہر حکومت کے ذمہ قرض ہے ، سعودی عرب میں مقیم پاکستانی تو”بنیادی“ سہولتوں پر ہی راضی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ریاض میں پاکستانی سفارتخانہ اور جدہ میں کام کرنے والا قونصلیٹ یہاں مقیم پاکستانیوں کو بہترین خدمات فراہم کرنے کی حتی المقدور کوششیں کر رہے ہیں۔
ریاض میں سفارتخانہ جانے کا اتفاق نہیں ہوا ، یقینا سعودی عرب کے دار الحکومت کی نسبت سے اس کی عمارت بھی شاندار ہوگی اور اس کی خدمات بھی مثالی ہوں گی تاہم جدہ قونصلیٹ سے متعدد امور میں واسطہ رہتا ہے۔
پاکستان قونصلیٹ جدہ میں پاکستانیوں کو پیش کی جانے والی سہولتوں کا جائزہ 5سال قبل سے لگایا جائے تو یقینا اس میں بہتری نظر آئے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں قونصلیٹ نے اپنی خدمات کو بہتر بنانے کے لئے کامیاب اقدامات کئے ہیں تاہم بہتری کی گنجائش بہر حال رہتی ہے۔
قبل اس کے ہم قونصلیٹ کی کارکردگی کو ناقص کہیں، خدمات میں کمی کا رونا روئیں، قونصلیٹ ملازمین کی بے رخی کا شکوہ کریں اور اس طرح کی شکایات کا انبار لگائیں ، ہم سب خود سے سوال کریں کہ من حیث القوم کیا ہم منظم ہیں۔
میں بھی چاہتا ہوں کہ قونصلیٹ کی خدمات میں بہتری آئے مگر شکایات کا انبار لگانے سے پہلے حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم ہجوم ضرور ہیں مگر منظم قوم نہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ قونصل خانہ جتنا خود کو منظم کرنے اور خدمات میں بہتری کی کوشش کرتا ہے، ہم اتنا ہی بے ہنگم طریقے سے اپنے معاملات نمٹانے کے لئے اس سے رجوع کرتے ہیں۔
ہم سعودی عرب میں رہتے ہیں اور یہاں متعدد سرکاری محکموں سے رجوع کرتے ہیں، آخر کونسا ادارہ ایسا ہے جو دن میں کم سے کم 500افراد کے معاملات نمٹاتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ مملکت کے بعض سرکاری اداروں میں روزانہ100سے زیادہ ٹوکن نہیں دیئے جاتے ۔
جب ہم ان اداروں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو فجر کی اذان سے پہلے وہاں پہنچ کر ٹوکن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قونصلیٹ میں کام کرنے والے ہمارے ہم وطنوں کا حوصلہ ہے جن کا 500 سے زائد افرادسے روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔
ایک افسر جو روزانہ اتنی بڑی تعدادمیں معاملات نمٹاتا ہے ، اس کا واسطہ ہر قسم کے لوگوں سے پڑتا ہے ، جو صبح سے دوپہر تک کاغذوں کے ڈھیر پر جھکاہوا ہے ، اس کے بعد ہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خندہ پیشانی اور مسکراتے چہرے سے لوگوں سے ملے، یہ کیسے ممکن ہے۔
قونصلیٹ کی خدمات میں یقینا بہتری کی گنجائش ہے،عملے کی کمی ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے، اپنے کام کو زیادہ منظم کرنا بھی چاہئے مگر قونصلیٹ سے توقعات رکھنے سے پہلے ہم خود کا جائزہ لیں۔ آپ خود قونصلیٹ میں ایک گھنٹہ کے لئے جاکر دیکھیں، سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو دیکھیں اور وہاں رجوع کرنے والوں کا بھی جائزہ لیں پھر انصاف سے فیصلہ کریں کہ کارکردگی کو بہتر بنانے کا مطالبہ قونصلیٹ سے کرنا چاہئے یا اس ہجوم سے جو اپنے معاملات نمٹانے کے لئے یہاں آیا ہے۔
یہ سطور لکھنے کا اصل مقصد پیش کرنے سے پہلے اس کا سبب بننے والا واقعہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ مجھے کسی کام سے قونصلیٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ میں اس ہال میں قطار میں کھڑا تھا جہاں فیس جمع کرنے کے بعد پاسپورٹ بنانے کے دیگر مراحل طے ہوتے ہیں۔
شاید مجھے قطار میں کھڑے 10منٹ ہوئے ہونگے۔ حسب معمول ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اورکم وبیش ہر آدمی دوسرے سے اونچی آواز میں بات کر رہاتھا۔
جو بات میری توجہ کا مرکز رہی وہ یہ تھی کہ ایک سرکاری ملازم مائک پر لوگوں کو بار بار ایک ہی ہدایت دے رہا تھا
جن حضرات نے کام مکمل کرلیا ہے وہ یہاں انتظار کرنے کے بجائے باہر چلے جائیں اور 4بجے واپس آئیں۔ اونچی آواز میں بات نہ کریں اور خاموش رہیں۔
پھر کچھ دیر بعد یہی اعلان ہوا جو حسب عادت کسی نہ نہیں سنا۔ جب تیسری مرتبہ اعلان ہوا تو سرکاری ملازم نے کہا
خدا کے واسطے خاموش رہیں اور اونچی آواز میں بات نہ کریں ، ہمیں توجہ سے کام کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جب ہم سعودی سرکاری اداروں میں جاتے ہیں تو کیا وہاں بھی ہمارا رویہ اس طرح رہتا ہے ۔ کیا اسی طرح بے ہنگم انداز میں وہاں بھی ہم اپنے معاملات نمٹاتے ہیں۔
جدہ قونصلیٹ چھوٹا پاکستان ہے، ہم یہاں جو رویہ اختیار کر رہے ہیں ، وہی رویہ ہم اپنے ملک کے ساتھ بھی کر رہے ہیں۔
اس کے بعد بھی ہم میں سے ہر ایک معصوم سا سوال کرتا ہے: آخر پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا۔