سعودی عرب میں پاکستانیوں سمیت تمام ممالک کے لاکھوں باشندے کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی پاکستانی مقیم ہیں۔

 ان ممالک میں اب ان کی تیسری نسل پروان چڑھنے لگی ہے تاہم جو سکون سعودی عرب میں مقیم غیر ملکیوں کوحاصل ہے وہ خلیج کی دیگر ریاستوں سمیت کسی ملک میں نہیں۔ اس کے کئی اسباب سمیت حرمین شریفین سے قربت اور مملکت کے دینی ماحول کا بڑا حصہ ہے۔

          مملکت میں غیرملکیوں کی آمد کا سلسلہ 50 کی دہائی سے بھی پہلے شروع ہوا۔ یہاں مقیم پرانے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ان کے آباء شاہ عبد العزیز اور شاہ سعود کے زمانے میں آئے تھے۔اس طرح اب ان کی تیسری نسل یہاں جوان ہورہی ہے۔

اس بات سے خود سعودیوں کو بھی انکار نہیں کہ مملکت کی تعمیر اورترقی میں دیگرغیر ملکیوں سمیت پاکستانیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

مملکت سمیت خلیجی ریاستوں میں کفالت کانظام اُسی زمانے سے رائج ہے۔ اس نظام کا مقصد آجر اور اجیر کے حقوق کا تحفظ اور مملکت میں مقیم غیر ملکی کے قیام کی مکمل ذمہ داری اس کے کفیل پر عائد ہوتی ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں دنیا کا کوئی نظام حتمی اور خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا۔ہر معاشرے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی نظام میں موجود سقم یا لچک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نظام کے حسن کو گہنا دیتے ہیں۔ کفالت کے نظام کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔

          مملکت میں مقیم پرانے پاکستانی کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر سعودی بہت سیدھے اور معصوم ہوا کرتے تھے۔ انہیں ہر الٹی سیدھی راہ ہم نے سکھائی ہے۔

 یہ ہم ہی تھے جنہوں نے سعودیوں کو ویزوں کا کاروبار سکھایا، آزاد ویزوں پرآنے کے بعد ہر مہینے انہیں مشاہرے کا عادی بنایا۔ گھر بیٹھے انہیں مفت کے مزے کی لت لگ گئی توسعودی عرب میں کفالت اور ویزوں کا کاروبار ایسا چمکا کہ آج مملکت کے ہر شہر میں آزاد ویزوں پر آنے والے کارکنوں کی ہر طرف بہار ہے۔

شہر کے صنعتی علاقوں، مرکزی شاہراہوں اور دیگر علاقوں میں فجر کے بعد سے لے کر مغرب تک ہر وقت آزاد مزدور منڈلاتے نظر آئیں گے۔ ان تمام آزاد مزدوروں کے پیچھے ایک کفیل ہوتا ہے جو مہینے کے آخر میں ان سے بھتہ لیتا ہے۔

 اس کاروبار کی تیزی کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ پاکستان کا ویزہ آج 18 ہزار ریال تک میں فروخت ہوتا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مملکت میں جرائم پیشہ عناصر کی اکثریت ان آزاد ویزوں پر آتی ہے جو مہینے کے آخر میں کفیل کو بھتہ دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ اگر جائز ذرائع سے بھتہ نہیں دے سکتی تو ناجائز ذرائع کو استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔

          آزاد ویزوں کے کاروبار نے جہاں معاشرے میں جرائم کو فروغ دیا ہے وہاں لیبر مارکیٹ کے توازن کو بھی بگاڑکر رکھ دیا ہے۔

دن بھر سیمنٹ کی بوریاںکمر پر اٹھاکر تیسری منزل تک لے جانے والے مزدور کو 50 سے 80 ریال یومیہ ملتا ہے۔ صبح 6 بجے سے شام 6 بجے تک وہ بوریاں اٹھاتا ہے۔

 یہ مزدور اس سے زیادہ مانگ بھی نہیں سکتا ، اگر مطالبہ کرے گا تو اس کی جگہ 10مزدور یہی کام کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ اسی قیاس پر دفتری ملازمتوں کا بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

 آزاد ویزوں کے کاروبار کی وجہ سے مارکیٹ میں ضرورت سے کہیں زیادہ لیبر موجود ہے۔ اس کاروبار کے باعث سعودائزیشن بھی مملکت میں ایک اہم مسئلہ ہے۔

          کفالت کے نظام کا خاتمہ اور اس کے متبادل دوسرے نظام کا مطالبہ مملکت میں نیا نہیں۔ خود حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ عالمی برادری میں کفالت کے نظام نے سعودی عرب کے روشن چہرے کوگہنادیا ہے۔

 اس نظام کو کچھ لالچی قسم کے لوگوں نے انسانی کاروربار کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اس کاروبار میں غیر ملکی کے انسانی حقوق کی پامالی بھی ہوتی ہے۔

خلیجی ممالک میں بحرین اور کویت نے کفالت کا نظام ختم کردیا ہے مگر ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بحرین اور کویت میں غیر ملکیوں کی تعداد کتنی ہے اور اس کے مقابلے میں سعودی عرب میں کتنے غیر ملکی کارکن موجود ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب نے بہت پہلے کفالت کے نظام کے متبادل پر غور کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ سعودی عرب ہی ہے جس نے غیر ملکی سرمایہ کار کےلئے ایسا نظام وضع کیا کہ وہ خود اپنا کفیل بن سکتاہے ۔ وہ اپنے نام پر کاروبارکرسکتا ہے ورنہ اس سے پہلے کسی سعودی کے نام پر کاروبار کیاجاتا تھا۔

 نئے ڈیجیٹل اقاموں میں کفیل کی اصطلاح ختم کردی گئی اور اس کی جگہ صاحب العمل کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ بعض حالات میں کفیل کی اجازت کے بغیر مکفول کی کفالت تبدیل کی جاتی ہے۔

یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مملکت میں وہ وقت دور نہیں جب کفالت کا نظام ختم ہوجائے گا ۔بہتر متبادل نظام آنے میں اب دیر نہیں۔