جو شخص آخرت پر یقین رکھتے ہوئے آخرت کی فلاح ہی کو اپنا اصل مطلوب ومقصود بنالیتا ہے تو اس کے ساتھ اللہ تعالی کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اس کو قناعت نصیب فرما کر اس کے دل کو اطمینان اور جمعیت خاطر نصیب فرمادی جاتی ہے۔
دنیا میں سے جو کچھ اس کے لئے مقدر ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی راستہ سے خود اس کے پاس آجاتا ہے۔
اس کے برعکس جو شخص دنیا کو اپنا اصل مقصود ومطلوب بنا لیتا ہے تو اللہ تعالی محتاجی اور پریشاں حالی اس پر اس طرح مسلط کردیتا ہے کہ دیکھنے والوں کو اس کے چہرے پر اور اس کی بیچ پیشانی میں اس کے آثار نظر آتے ہیں۔
دنیا کی طلب میں خون پسینہ ایک کردینے کے بعد بھی اس طالب دنیا کو بس وہی ملتا ہے جو پہلے ہی سے اس کے لئے مقدر ہے۔
پس واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ آخرت ہی کو اپنا مقصود ومطلوب بنائے اور دنیا کو بس ایک عارضی اور وقتی ضرورت سمجھ کر اس کی طرف اتنی ہی فکر کرے جتنی کسی عارضی ووقتی چیز کی فکر ہونی چاہئے۔
(معارف الحدیث ۔ از مولانا محمد منظور نعمانی)